اردو کالم: "یوسف بن تاشفین" کالم نگار صلاح الدین سلطان


کیا اُمت مسلمہ مر چکی ہے کہ کوئی بھی ہماری مدد کو آنے کو تیار نہیں ہے؟ کیا محمد عربی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  کے ماننے والوں کی تلواروں کو زنگ لگ چکا ہے کہ عیسائی ہماری عزتوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، کیا ہم سمجھ لیں کہ اندلس میں مسلمان کا سورج غروب ہو چکا ہے یہ دوالفاظ تھے جو سعد بن عبدالمنعم اپنے ساتھ اندلس سے لایا تھا۔ جب وہ اپنے ساتھ لایا خط پڑھنے میں مصروف تھا تو اس کی نظر سامنے چٹائی پر بیٹے افریکہ کے رجل اعظم بر بروں کے سردار اور مراکش کی حکمران جماعت مرابطین کے لشکر کے کماندار یوسف بن تاشفین پرتھی۔ جس کی انکھوں میں ایک عجیب چہک تھی جیسے وہ کوئی گہری ہا تھیں سوچنے میں مصروف تھا۔ ائے بہادر نو جوان ! میں تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ جب اندلس پر یہ وقت آیا کہ اسے اپنے بیٹوں کی ضرورت پڑی تو یوسف تمھیں صف اول میںملے گا مگر یوسف بن تاشفین چٹائی سے اٹھ کھڑا ہوا۔" مگر کیا میرے مربی سعد کی آواز ابھری۔ اگر تمھاری حکومت مجھے مدو کی درخواست کرے تو میں تمھاری مد دکو ضرور آؤں گا اس کی بات سن کر سعد بن عبدالمنعم کے چہرے پر پسینے کے قطرے ٹیکنے لگے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ مملوک الطوائف کبھی بھی یوسف بن تاشفین کو مدد کی درخواست نہیں کریں" معزز ناضرین اس داستان کو شروع کرنے سے پہلے آپ کو اندلس کے بارے میں چند معلومات دیں گے۔ اُندلس طارق بن زیاد کا فتح کیا ہوا عالم اسلام کے لیے ایک انعام تھا جسے بعد میں اموی شہزادے عبدالرحمان نے وسعت دی تھی جو عباسیوں کے ہاتھوں حکومت چھن جانے کے بعد یہاں آکر اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اندلس کے بارے میں حیرت انگیز معلومات تاریخ میں یہ ملتی ہیں کہ سب سے پہلے روشنی کا منبع جو کہ ایک ایسا مادہ تھا جو رات کی تاریکی میں چہکتا تھا اندلس میں ہی دریافت ہوا تھا یوں کہہ لیں کہ ان روشنیوں کا شہر لندن جب اندھیرے میں ڈوبا تھا تب مسلمانوں کے عظیم شہر قرطبہ کی ہر گلی روشنی سے جگمگا رہی تھی۔ گنے کی کاشت سب سے اندلس میں ہی ہوئی جبکہ سوتی دھاگا بنانے والے ریشم کے کیڑے پالنے کا رواج اندلس سے پھیل کر چین میں پہنچا اور سب سے پہلے ہوا باز عباس کا تعلق بھی اندلس سے تھا۔ یوں کہنا بجانہ ہوگا کہ عبد الرحمان کی حکومت میں اندلس ایک سائنسی اور اس دور کا ایک مجو بہ شہر تھا۔ اندلس میں لکھنے کے لیے سیاہی کا استعمال ایک رجحان بن گیا ۔اندلس میں پر شکوہ عمارتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ فرانس کے شہنشاہ عبدالرحمان ثالث سے ملنے کے لیے آئے تو شاہی محل النزا ہرا کی تعمیر و مرمت کو دیکھ کر ششدر رہ گئے تھے ۔ اندلس میں محل سرا ئیں یہ تھیں۔

 1- قصر مشعوق

 2- قصر السرور

 3- قصر التاج

 اس کے علاوہ اندلس میں کئی چھوٹے پیمانے کی انڈسٹریاں اور کارخانے بھی تھے۔ مگر افسوس عبدالرحمان اول اور ثالث کا بنایا اندلس آج چھوٹے چھوٹے قصبوں اور ضلعوں میں بٹ چکا تھا۔ وہ اندلس جس کی طاقت کے سامنے فرانسیسی حکمران سر جھکاتے تھے آج اس کے بزدل حکمران قسطلہ کے باجگزار تھے۔ اندلس کے اہم اور طاقتور صوبے یہ تھے۔ فرنانہ جس پر بنی زیری حاکم تھے ۔ سرقسطہ اور لادہ جس پر بنو ہنود حاکم تھے طبیطلہ جو کہ بنوذالنون کے پاس تھا اور اس کا حکمان کی القادر تھا۔ اشبیلہ جو بو عباد کے پاس تھا، قرطبہ بنو ہو ، المرسیہ پر بنی سماوح، بطلیوس پر بنی افطس ، هلب پر بنی مزین، سهله پر بنی از بین ولیہ پر بنی بکر ، قرمونه پر بنی رزگ، مالقہ پر بنی جمود اور بلیوس پر مظفر حکمران تھا۔معزز ریڈر یہ کہانی نہ تو کسی فرشتے کی ہے اور نہ ہی کسی دیو مالائی کہانیوں کا حصہ ہے بلکہ یہ ہماری اور تمھاری طرح ایک عام انسان کی ہے جس کی رگ رگ میں اسلام بستا تھا اور ہر وقت عالم اسلام کے لیے مرنے اور مارنے کو تیار رہتا تھا۔ یوسف بن تاشفین تاریخ کا ایک اہم باب ہے

جسے ہر مسلمان کو پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ یوسف تاشفین کی اس فتح کے بعد اندلس میں پانچ سو سال تک اسلام کا سورج چمکا رہا مگر بعد میں اپنوں کی غداری کی وجہ سے اندلس سپین میں تبدیل ہو گیا جو کہ ایک الگ داستان ہے جوانشاءاللہ جلد ہی  آپ سے گوش گزار کریں گا۔

متعلقہ خبریں

____ اشتہار ____

____ اشتہار ____