گھڑی کی ایجاد
شروع اس خدائے لم یزل کے نام سے جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے۔
آج کی کہانی کی شروعات ہوتی ہے ایک نئے مگر اہم موضوع کے ساتھ چند دن پہلے میرے ایک انتہائی اہم دوست نے مجھ سے بات کی کہ انگریز ہم سے کئی صدیاں آگے ہیں اور ترقی کے معاملے میں ہم ان سے بہت پیچھے ہیں۔ اس کی بات سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی مگر کہتے ہیں کہ آپ کی چاہ کسی کی راہ بنا دیتی ہے میں نے اپنی تاریخ کو کھنگالا تو میرے سامنےکنی داستا نیں ایسی آئیں جو ہم سے چھپائی گئی تھیں۔ جی ہاں جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنی
پاک کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ قسم ہے مجھے وقت کی کہ انسان خسارے میں ہے " القران آیت نمبر
وقت کی اہمیت یہ ہے کہ یہ بھی کسی کے لیے نہیں رکتا ہے اور ہمیشہ اپنی سپیڈ سے دوڑتا رہتا ہے۔ نہ وقت کسی کے لیے رکا ہے نہ رکے گا چاہے یہ کسی کے ساتھ ہو یا پھر خلاف ہو۔ اللہ تعالی نے بنی آدم کو جب زمین پر اتارا تو زمین پر شب روزبیتنے لگے۔ روز سورج مشرق سے طلوع ہوتا اور مغرب میں غروب ہو جاتا ۔ پھر اللہ نے حکم دے دیا کہ فلاں دن تم یہ کام کرو اور فلاں دن تم نے یہ کام ہر گز نہیں کرنا یہ لوگ وقت کے بارے میں جانے کی کوشش کرتے رہے کہ انھیں کیسے معلوم ہو سورج کب طلوع ہوتا ہے اوررات کب پڑتی ہے کیونکہ اکثر انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا پڑتا تھا ۔ یوں وقت کی اہمیت آہستہ آہستہ بڑھتی گئ
وقت ماپنے یا پھر یوں کہیں کہ وقت معلوم کرنے کا سب سے پہلا طریقہ مصر میں 1500 قبل مسیح میں ترویج پایا۔ ہم اسے عرف عام میں پانی والی گھڑی کا نام دے سکتے ہیں اور اسی طرح کا طریقہ ہندوستان میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس کا نام تاریخ میں گھاتیکا یانترا سامنے آیا ہے۔ یہ گھڑی در اصل ایک قسم کے باؤل سے بنائی جاتی تھی جس کی بنیادوں میں باریک سوراخ ہوتا تھا جہاں سے پانی آہستہ آہستہ گرتار ہتا تھا۔ بڑے سے برتن سے پانی اس باؤل میں گرتا رہتا اور اس عمل کو دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے ایک اور باؤل کو نیچے رکھ دیا جاتا ہوں یہ کھیل دوبارہ سے شروع ہو جاتا۔ کئی صدیوں تک یہ نظام انسانیت کو وقت بتانے کے لیے کام کر تار ہا اس کے بعد لوگوں نے پانی کی جگہ ریت کا استعمال شروع کر دیا ۔ ایک شیشے کے مرتبان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا اور درمیان میں موجود روکاوٹ میں بار یک سوراخ کر دیا جاتا جہاں سے ریت آہستہ آہستہ گرتی رہتی اور جب یہ ریت نیچے والے حصے میں بھر جاتی تو اسے الٹا کر کے دوبارہ سے اس عمل کو شروع کر دیا جاتا ۔ دقت معلوم کرنے کا عمل در اصل بدھ مت اور ہندومت مندروں میں استعمال کیا جاتا تھا ۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جدید گھڑی کی بنیاد کس نے رکھی تھی نہیں نہ تو ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ ایک شخص جو کہ شمالی ترکی کے شہر دیار بکر کا رہنے والاتھا اور اسکا نام الجزاری تھا۔ الجزاری قدیم ہندوستانی سائنس اور یونانی ٹیکنا لو جی سے متاثر تھا اس وجہ سے وہ سائنسی ایجادات کی کھوج میں لگا رہا تھا اسکو دیاریبکر کے بادشاہ اتا ترک کی سر پرستی حاصل تھی اسکی سرپرستی میں الجزاری نے اپنے دور
میں اس وقت کی بہت سی بیش قیمتی گھڑیاں بنادیں تھیں۔ ایک دن اسے سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے ناصر الدین نے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ تم ایک انتہائی زہین اور مہنتی انسان ہو آج سے تم میرے لیے کام کرو میں تمھیں ہر ممکن مدہ فراہم کروں گا۔ شاہی سر پرستی میں اس نے وقت کی پہلی سائنسی کتاب تخلیق کی جس کا نام اس نےThe book of knowledge ingenious and mechanical devic رکھو جو بعد میں انجینئر نگ کے طالب علموں کے لیے ایک اہم اور مفید رہنما کتاب ثابت ہوئی ۔ یہ پچاس کے قریب میکینکل ڈیوائس کو چھ کیٹیگری میں تقسیم کرتی ہے۔ جس میں اس نے پانی والی گھڑی کو بخوبی بیان کیا ہے ۔ کیونکہ وقت کی اہمیت اسے معلوم تھی اور وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں وقت کی کتنی اہمیت پائی جاتی ہے جیسا کہ کب نماز پڑھنی ہے۔ اور ماہ رمضان کب شروع ہوتا ہے حج بیت اللہ کے لیے کب جاناہے الغرض ہر اچھے کام میں وقت کو ایک اہم مقام حاصل تھا اسی وجہ سے اللہ تعالی نے اپنی پاک کتاب قرآن مجید میں وقت کی قسم کھائی ہے۔ یہ سب باتیں الجزاری کو گھڑی کی ایجاد کے لیے مجبور کرتی تھیں ۔ وہ ایک ایسی ڈیوائس بنانا چاہتا تھا جس کی بدولت وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ ر ہے اس چیز نے اسے ایک ایسی ایوائس بنانے میں مدد فراہم کی جو بعد میں تاریخ کی سب سے بڑی ایجاد بنی۔ آج ہم سب کے ہاتھ میں گھڑیاں موجود ہیں یہ سب اس عظیم آدمی کے دماغ کی بدولت تھی اس نے پانی والی گھڑی سے متاثر ہو کر ایک ایسی گھڑی بنادی جو ہاتھی والی گھٹری کے نام سے مشہور ہوئی ۔ یہ گھڑی نہ صرف دیو ہیکل تھی بلکہ یہ اپنے پاس رکھنے والے کی امارت د رتبہ اور دولت کی نمائش بھی کرتی تھی۔ دراصل یہ گھڑی دنیا کا سب سے پہلا روبوٹ بھی تھا جو نہ صرف حرکت کرتا تھا بلکہ وقت بتانے کا سب سے پہلا زریعہ بھی تھا تاریخ جانو انیٹ ورک آپ کو اب الجزاری کی اس ایجاد کے بارے میں بتانے جارہا ہے جس نے سائنس کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ آج سے 800 سال پہلے الجزاری نے وقت معلوم کرنے والی ہندوستانی گھاتیکا یانترا کا استعمال کیا۔ اس گھڑی کو بنانے کے لیے الجزاری نے بین الاقوامی رجحان پر خصوصی توجہ دی۔ اس نے اس گھڑی میں عربی مصوری ، ہندوستانی گھاتیکا یاترا اور مصری Phoenix اور چینی ڈریگن کا استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کی طرز کا ایک روبوٹ بھی اس گھڑی میں بنایا گیا جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ صلاح الدین اب وقت چلائے گا۔ الجزاری نے گھڑی بناتے ہوئے بین الاقوامی نظریے کو فوقیت دی اس میں استعمال ہونے والا ہر جاندار اپنی نوعیت سے انوکھی صلاحیت رکھتا ہے۔ مصری Phoenix ) سے مراد زندگی لی جاتی ہے اور ہاتھی کو شاہی پروٹوکول کا حصہ سمجھا جاتا ہے چین میں ڈریگن کو طاقت کا مرکز قرار دیا جاتا ہے اس گھڑی میں ہندوستانی گھاتیکا یانترا اور یونانی ارکیڈین کا استعمال کیا گیا تا کہ گھماؤ کی صلاحیت پیدا ہو نہ کہ گھاتیکا یانترا کے طرز پر آہستہ آہستہ گرتا رہے۔الجزاری نے یہاں سپیڈ اور ولاسٹی کو بھی ملحوظ خاطر رکھا کہ باؤل کو بھرنے میں کم از کم ادھا گھنٹہ لگے اور آدھا گھنٹہ اس باوُل سے پانی کو گرنے میں لگے۔ اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ الجزاری کی تخلیق کردہ یہ روبوٹک گھڑی کام کیسے کرتی تھی
سب سے اوپر گھاتیکا یانترا اور مصری فونیکس کو استعمال کیا گیا تاکہ پانی کے بھرنے پر آواز پیدا ہو۔ ایسے معلوم پڑتا جیسے کہ پرندہ چہچہا رہا ہو۔ پانی کے بھرنے پر کاسٹل میں گھماو پیدا ہوتا جو کاسٹل میں موجود بالز کو حرکت میں لاتا ۔ کاسٹل کے ساتھ جڑا اصلاح الدین اب یہ فیصلہ کرتا کہ کون سابال فالکون سے گرے گا۔ فالکون صلاح الدین کے بازوں کی حرکت سے بال کو خارج کرتا ۔ یہ بال فالکون سے نکل کر صلاح الدین کے نیچے موجود ڈریگن کے منہ میں گرتا ہے اور ڈریگن کے اندر سفر کرتے ہوئے اس کی دوسری طرف سے باہر نکل جاتا ہے۔ ڈریگن اب یہ بال انڈین ہاتھی کی طرف پھینک دیتا ہے۔ ہاتھی بان اپنے بازؤوں کو حرکت دیتا ہے اور ہاتھی کے سر پروار کرتا ہے جس سے ایک آواز پیدا ہوتی ہے۔ اور بال ہاتھی کی Vase میں چلا جاتا ہے۔ یوں اس کا ایک چکر مکمل ہو جاتا اور اس سارے معاملے انداز آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ ٹوٹل تیس بال کاسٹل میں کے اندر موجود ہوتے ہیں اور یہ عمل ہر بار جاری رہتا ہے ۔ صلاح الدین کی تصویر کے پیچھے ڈائل پر بنا سرکل گزرا ہوا وقت بتاتا ہے۔ ڈائل پر جیسے ہی آدھا گھنٹہ گزرا اور بال Vase تک پہنچتا تب تک گھاتیکا یا نترا باؤل کا آدھا حصہ دوبارہ بھر دیتا ہے اور پھر سے پہلے والا پیچیدہ عمل دوبارہ سے شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سارادن ہر آدھے گھنٹے بعد جاری رہتا ہے۔
الجزاری نے اسے اس طرز سے بنایا تھا کہ یہ دن میں دو بار Reset ہوتی تھی ایک بار طلوع افتاب کے وقت اور دوسری بار غروب آفتاب کےوقت اس کا مقصد ان میں بالوں کو ہر بار اپنی پوزیشن پر لانا ہوتا تھا اور پانی کے لیول کوبھی برابر کرنا ہوتا تھا جیسے جیسے دن رات تبدیل ہوتے پانی ک Flow اپنے آپ تبدیل ہو جاتا اس وجہ سے سوئی ہر بار اپنا رخ تبدیل کر لیتی تھی۔ تاریخ جانو انیٹ ورک ریڈرز! یہ گھڑی ابن بطوطہ مال میں موجود ہے جو سات میٹر اونچی، ساڑھے چار میٹر لمبی، سوا ایک میٹر چوڑی اور ساڑھے سات من وزنی ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ ایک انوکھی ایجاد تھی جس نے بعد میں گھڑی کی ایجادات میں ایک طوفان پر پا کیا۔ موجودہ گھڑی سازی اس ایجاد کی مرہون منت ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ایجاد کے بعد پوری دنیا کو وقت ملا ۔یہ کہانی تھی ہمارے اس جدا مجد کی جس کی ایجادات کی بنیادوں پر آج عالم کفر کی تجارت اور معیشت گھڑی ہے مگر ہماری نسل ہمارے ان اکابر کی داستانوں سے نا وقت ہے جنھوں نے سائنس اور دنیا دونوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے
- ناسا کا مریخ پر اپنے چھوٹے ہیلی کاپٹر سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
- معروف صحافی صابر شاکر نے عرفان صدیقی کے ٹویٹ کا جواب دیا
- عمران خان کے حق میں ایک اور گواہی آگئی | عالمی جریدے میں ایک اور آرٹیکل چھپ گیا ہے ۔
- گھڑی کی ایجاد کیسے ہوئ
- اردو کالم: "یوسف بن تاشفین" کالم نگار صلاح الدین سلطان
- ناسا کا مریخ پر منی ہیلی کاپٹر سے دوبارہ رابطہ ہوگیا